Iqra Aziz

Add To collaction

31-Aug-2022-تحریری مقابلہ :" کفارہ ! "

" کفارہ! "

از قلم : اقراء عزیز


پرتعیش آفس روم میں اے سی کی کھنک کو محسوس کرتے ہوئے وہ مسرور سا آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔ جب اس کا دوست احمر وہاں چلا آیا۔
قدموں کی چاپ پہ اس نے سر اٹھا کے دیکھا۔
” اوہ احمر! کہاں تھے اتنے دن۔“

وہ خوشگوار حیرت سے پوچھنے لگا۔
” بس کچھ مصروفیت ہی ایسی تھی۔“
وہ اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
” یار تم بھی نا۔۔جانتے ہو عامر کا کل باہر افطاری کی دعوت کا پلان تھا۔ مگر پھر کینسل ہوگیا۔ کتنا اچھا تھا جو اگر ہم تینوں ایک دن مل کر باہر افطاری کرتے۔“
” ہوں۔۔مگر ایک بات تو حقیقت ہے ارسل۔ کہ ہم جتنی بھی باہر افطاری کرلیں۔ افطاری کا اصل مزہ گھر میں اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ کرنے میں ہی آتا ہے۔ “ جواباً وہ مسکرا کر گویا ہوا۔
 جس پہ ارسل نے خفگی سے سر جھٹکا۔
” بس احمر۔۔میرے گھر میں تو ایک امی ہی ہیں جو تنہا ہیں، اور وہ بہ مشکل کوئی ایک آدھ چیز ہی افطاری میں بنا سکتی ہیں۔اور میں ٹھہرا صدا کا کھانے پینے کا شوقین۔“  اپنے آخری جملے پہ وہ دھیرے سے ہنس پڑا۔
جبکہ احمر خاموش نظروں سے اسے دیکھے گیا۔
اسی لمحے ارسل کے آفس کا ایک بوڑھا خادم اجازت لے کر اندر داخل ہوا۔
” کہو کیا بات ہے؟ “ اُس نے ابرو اچکا کر سوالیہ نظروں سے پوچھا۔
” سر! وہ مجھے گھر کے لئیے راشن لینا تھا۔ اگر آپ کے پاس کچھ پیسے ہوں۔۔دراصل میرے گھر میں راشن ختم ہوگیا ہے۔“ انہوں نے جھکے سر سمیت کہا۔
ان کی بات پہ جہاں احمر کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ وہیں ارسل کے چہرے پہ مزید بیزاری چھاگئی تھی۔
” ابھی کچھ ہفتے پہلے ہی تو دئیے تھے پیسے۔ رمضان میں بھی کیا تم کھانے پینے سے باز نہیں آتے؟ “
اس بوڑھے خادم کے چہرے پہ تکلیف کے آثار نمایاں ہوئے۔ جو احمر صاف دیکھ سکتا تھا۔
” سر وہ میرے بچوں کا روزہ ہے۔ بس اسی لئے ضرورت تھی۔“ وہ اپنے سے اُس بیس سالہ چھوٹے نوجوان کے سامنے سر جھکائے کہہ رہے تھے۔
اور احمر نے تاسف سے سوچا۔
کیا یہی ہے ہمارا معاشرہ؟
کیا غریبوں کا ہی سر جھکانا لازم ہوتا ہے؟
” نہیں ہیں میرے پاس کوئی پیسے۔ جاؤ اب یہاں سے۔“ ارسل نے سخت لہجے میں کہا۔
جبکہ احمر نے ملال بھری نظروں سے پہلے اپنے اس دوست کو دیکھا۔ پھر ان بوڑھے خادم کو اور نرمی سے آنکھوں کو جنبش دیتے ہوئے انہیں باہر جانے کا اشارہ کیا۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے وہاں سے باہر نکلتے چلے گئے۔
جبکہ احمر نے گہری سانس لے کر اسے دیکھا۔
” جس کھانے پینے کا تم نے انہیں طعنہ دیا ہے۔ کیا تم نے کبھی انہیں بے وقت اپنے اس آفس میں کھاتے دیکھا ہے؟ “
” نہیں احمر ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو میں نے اسے پیسے دئیے تھے..“ اس نے کہنا چاہا۔
مگر احمر نے ہاتھ اٹھا کے اسے روک دیا۔
”یہ بتاؤ کتنا عرصہ؟ “
” یہی کوئی دو ماہ پہلے۔“ اس نے یاد کرکے بتایا۔
” اور ابھی بس کچھ ہفتے پہلے ہی تو دئیے تھے؟ یہی کہہ رہے تھے نا تم ان سے۔۔ جانتے ہو وہ بیچارے تو اپنی خود داری کے باعث یہ بھی نہ کہہ پائے کہ وہ خود بھی ایک روزے دار ہیں۔“
اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔
” بہت افسوس کی بات ہے ارسل عباد۔ کیا فائدہ تمہارے اس روزے کا۔۔ جو شخص روزے رکھنے کے بعد بھی کسی کی دل آزاری کا سبب بنے۔ وہ مومن نہیں ہوسکتا۔“
اور وہ لب بھینچے اس کی بات سن رہا تھا۔
” یاد رکھنا! روزہ توڑنے کا کفارہ تو ادا کیا جاسکتا ہے۔ مگر کسی کا دل توڑنے کا کوئی کفارہ نہیں ہوتا۔ جب تک کہ سامنے والا خود آپ کو معاف نہ کردے۔“
ارسل نے ندامت سے اپنا سرجھکالیا۔
احمر وہاں سے جانے ہی لگا تھا کہ پھر کسی خیال کے تحت پلٹا۔
” اگر ہوسکے تو آج کی افطاری اپنی امی کے ساتھ گھر پہ کرنا۔ ہوسکتا ہے تمہاری آج کی ان کے ساتھ کی گئی افطاری سے اللہ تم سے راضی ہوجائے اور تمہارے کسی گناہ کا کفارہ ادا ہوجائے! “
اس کا دوست احمر وہاں سے جاچکا تھا۔
اور اب وہاں صرف خاموشی تھی۔ گہری۔۔لاجواب کردینے والی خاموشی!

   8
2 Comments

Maria akram khan

31-Aug-2022 09:11 PM

MASHA ALLAH behud umdah tehreer hai ❤️ likhny ka andaz content sb lajawab hai 💜💜

Reply

Raziya bano

31-Aug-2022 08:02 PM

نائس

Reply